کٹی ہی شاخ (ڈاکٹر قمر جہاں )
यहां हम daraksha urdu book class 10 chapter 4 kati hui saakh subjective questionکٹی ہی شاخ वस्तुनिष्ठ और व्यक्तिपरक प्रदान कर रहे हैं क्योंकि यह कक्षा 10 के छात्रों के लिए बहुत महत्वपूर्ण है क्योंकि हम सभी जानते हैं कि प्रत्येक बोर्ड परीक्षा प्रश्न में वस्तुनिष्ठ और व्यक्तिपरक होता है इसलिए छात्रों को इन प्रश्नों का अभ्यास करना चाहिए ताकि छात्र बोर्ड में अच्छे अंक प्राप्त कर सकते हैं। Bihar Board Class 10 Urdu daraksha urdu book class 10 chapter 4 subjective question यहां हम daraksha urdu book class 10 chapter 4 کٹی ہی شاخ subjective question प्रदान कर रहे हैं ताकि छात्र अधिक से अधिक अभ्यास करें।
daraksha urdu book class 10 chapter 4
کٹی ہی شاخ subjective question Bihar board
مختصر ترین سوالات مع جوابات
سوال1- قمر جہاں کی پیدائش کب ہوئی ؟
جواب : قمر جہاں کی پیدائش 52-1951ء میں ہوئی ۔
سوال2- قمر جہاں کے والد کا نام کیا ہے ؟
جواب : قمر جہاں کے والد کا نام سید عطاء الحق تھا ۔
سوال 3- قمر جہاں کا پیدائشی تعلق صوبہ بہار کے کس ضلع سے ہے ؟
جواب : قمر جہاں کا پیدائشی تعلق صوبہ بہار کے سمستی پور ضلع سے ہے ۔
سوال4- قمر جہاں کا کون سا افسانہ آپ کے نصاب میں شامل ہے ؟
جواب : قمر جہاں کا افسانہ “کٹی ہوئی شاخ ‘ ‘ ہمارے نصاب میں شامل ہے ۔
سوال5- قمر جہاں کس یو نیورسٹی میں استاد ہیں ۔
جواب : قمر جہاں بھا گلپور یو نیورسٹی میں استاد ہیں ۔
مختصر سوالات مع جوابات
سوال1- قمر جہاں کی حالات زندگی پر پانچ جملے لکھے ؟
جواب : ڈاکٹر قمر جہاں کی پیاس 1951 ء میں سمستی پور ضلع کے مردم خیز گاؤں بزرگ دوار میں ہوئی- اس لئے اسی گاؤں کو ان کا آبادئی وطن سمجھنا چا ہنے والد کا نام سید عطا الحق تھ ان کا خاندان گاؤں میں تعلیم یافتہ سمجھا جاتا تھا ۔ گھر کے تمام افراد علم و ادب سے دلچسپی رکھتے تھے ۔ چنانچہ روایتی تعلیم حاصل کرنے کے بعد قمر جہاں پٹنہ آ گئیں اور پٹنہ یو نیورسٹی سے اردو میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کیا ۔ طالب علمی کے زمانے سے ہی اردوادب سے فطری لگاؤ تھا اس لئے 1966 ء سے ہی انسان لکھنا شروع کر دیا ۔
سوال2- قمر جہاں کی تصانیف کی فہرست موضوع کے اعتبار سے لکھے ؟
جواب : قمر جہاں ایک افسانہ نگار کے ساتھ ایک تنقید نگار بھی ہیں چنانچہ ان کی تصانیف ادب کے دونوں میدانوں میں ہیں ۔ان کی افسانوی نگارشات میں تین افسانوی مجموعے ہیں جو درج ذیل ہیں ۔ ( ۱ ) چارہ گراشاعت 1983 ( 2 ) اجنبی چہرے اشاعت 1991 ( 3 ) یادنگر ز یر اشاعت قمر جہاں کی تنقیدی تصانیف درج ذیل ہیں ۔ ( 1 ) اختر شیرانی کی جنسی ورومانی شاعری ( 2) معیارم ( 3) کلام عبد اللہ حافظ مشکی پوری اور “حرف آ گہی وغیرہ قلمی سفر ابھی جاری ہے-
سوال 3- قمر جہاں کی تعلیم و تدریس کے بارے میں مختصر بیان کیجئے ؟
جواب : قمر جہاں کی ابتدائی تعلیم ان کے آبائی گاؤں بزرگ دوار میں ہوئی اس کے بعد وہ پٹنہ چلی گئیں اور وہاں پٹنہ یونیورٹی مہیلا کالج میں داخلہ لیا اور انٹر آنرس اور اردو میں ایم اے کیا اور پی ایچ ڈی بھی کیا۔اس کے بعد سندروتی مہیلا کالج بھاگلپور میں اردو لکچرر کی حیثیت سے آپ کا تقرر ہوا یہیں سے ان کے تدریسی کیریر کا آغاز سمجھنا چاہئے ۔
پھر آپ کا تبادلہ سندروتی کالج سے بھاگلپور یو نیورسٹی کے شعبہ اردو میں ہو گیا ۔ اور ترقی کر کے قمر جہاں صدر شعبہ اردو ہو گیں ۔ تدریسی ذمہ داریوں کے ساتھ آپ افسانہ نگاری بھی کرتی رہیں اور آپ کی کئی تنقیدی تصانیف بھی ہیں ۔ یعنی تدریسی و تخلیقی عمل دونوں ساتھ ساتھ جاری ہے ۔
سوال 4- اردو کے کسی پانچ خواتین افسانہ نگاروں کے نام لکھئے ؟
جواب : اردو کی پانچ خواتین افسانہ نگاروں کے نام درج ذیل ہیں
شکیلہ اختر (2) قمر جہاں (3) شمیم افزا قمر (4) اسمت چغتائی (5) قرہ العین حیدر
طویل سوالات مع جوابات
سوال 1- قمر جہاں کے افسانوں کے موضوعات پر روشنی ڈالئے ؟
جواب : قمر جہاں کے افسانوں کے موضوعات کے تعلق سے بالکل فطری اور آفاقی اصول کارفرما ہے یعنی کہا جا تا ہے کہ کوئی فنکار اپنے عہد کا آئینہ دار ہوتا ہے بالفاظ دیگر فنکاراپنی تخلیقات میں اپنے عہد کی آئینہ داری کرتا ہے ۔
فنکار چونکہ سماج کے عام لوگوں سے ذہنی سطح پر مختلف اور نسبتاً حساس ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے گردوپیش کے حالات سے عوام الناس کی بہ نسبت زیادہ متاثر ہوتا ہےاور اپنی تخلیقات میں انہیں تاثرات گردو پیش کے احوال وکوائف کو کہانی یا شعر کی شکل میں پیش کرتا ہے فنکار کے لئے اپنے عہد کی آئینہ داری کی دوصورتیں ہیں ایک صورت یہ ہے
کہ فنکاراپنے گردوپیش کے احوال وکوائف سے جو کچھ اخذ کرتا ہے اسے اپنی تخلیقات میں پیش کرتا ہے دوسری صورت یہ ہے کہ فنکار کی پیش کش کو بنیاد بنا کر معاشرہ بھی اس سے بہت کچھ اخذ کرتا ہے اور آنے والی نسل اس سے متاثر ہوتی ہے ۔ چنانچہ ہندوستانی معاشرے میں جیسے زمانے کے حالات رہے ہیں مختلف عہد میں فنکاروں نے ان ہی چیزوں کو اپنی تخلیقات میں پیش کیا ہے مثال کے طور پر زمیندارانہ اور جاگیردارانہ دور کی تخلیقات اسی عہد کی عکاسی کرتی ہیں ۔
تحریک آزادی کے دور کی تخلیقات سے انگریزوں سے نفرت اور مخالفت کا رجحان ملتا ہے ۔ ترقی پسندی کے دور میں اشترا کی خیالات کا اظہار ہوتا ہے ۔
آزادی کے دوران کی تخلیقات میں آزادی اور تقسیم ملک سے متعلق حالات ملتے ہیں اسی طرح آزادی کے بعد کے حالات بہت حد تک بدل چکے تھے اس لئے اس دور کی تخلیقات میں بدلے ہوۓ حالات میں آزاد ہندوستان کی تصویریں ملتی ہیں اور آج ہم اکیسویں صدی کے سائنس اور کمپیوٹر کے دور میں سانس لے رہے ہیں چنانچہ آج معاشرے پر مادہ پرستی کا غلبہ ہے اخلاقی اقدار رفتہ رفتہ زائل ہوتے جار ہے ہیں چنانچہ آج کا فنکار آج کے دور کی ہی نمائندگی کرتا ہے ۔
یہیں صورت حال قمر جہاں کے افسانوں کے موضوعات کے ساتھ بھی ہے ۔ یعنی ان کے افسانوں میں آج کے حالات میں مادہ پرستی کا رجحان اور اخلاقی زوال کی عکاسی کے موضوعات زیادہ ہیں اگر ہم یہ کہیں تو بیجا نہیں ہوگا کہ افسانہ نگار اپنے عہد کے حالات سے یہی اپنے موضوعات متعین کرتا ہے اور یہی موضوعات قمر جہاں کے افسانوں میں پاۓ جاتے ہیں ۔
سوال 2- کہانی کا عنوان “کٹی ہوئی شاخ “کیوں ہے واضح کیجئے ؟
جواب : زیر نصاب افسانہ ’ ’ کٹی ہوئی شاخ ‘ ‘ قمر جہاں کا ایک کامیاب افسانہ ہے اس افسانہ میں کہانی جس سماجی پس منظر سے لیا گیا ہے وہ کہانی کے عنوان کواسم بامسمی بنادیتا ہے ۔
آج کے جدید سائنسی اور مادی ماحول میں ہندوستان سماج میں جو مسائل پیدا ہور ہے ہیں انہیں مسائل کو قمر جہاں نے اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے چنانچہ ز یر نصاب “افسانہ کٹی ہوئی شاخ ” اسی پس منظر سے متعلق ہے جس میں ایک شخص روپیہ کمانے کے لئے خلیجی ممالک جا تا ہے وہ شب و روز کی محنت سے رو پیہ تو خوب کمالیتا ہے لیکن اپنے معاشرے اور تہذ یب سے کٹ کر جس ذہنی کر ب واذیت کا شکار ہوتا ہے
اس کی کیفیت کی ترجمانی اس افسانے میں بدرجہ اتم موجودہ عہد کی سائنسی ترقیوں اور ان کی ایجادات نے انسانی تہذیب کو تو متاثر کیا ہی ہے ساتھ ہی اخلاقی پہلو کوبھی مجروح کیا ہے اسی موضوع پر ارتکاز کر کے افسانے کا مرکزی خیال پیش کیا گیا ہے جس میں مادیت کا غلبہ ہو گیا ہے اسی پس منظر میں زیر نصاب افسانہ میں افسانہ نگار قمر جہاں نے ایک ایسے کردار کو پیش کیا ہے جو رو پیہ کمانے کے لئے خلیجی ممالک جا تا ہے رو پیہ بھی خوب کما تا ہے لیکن وہ اپنے معاشرے اور تہذیب سے کٹ کر جس دہنی کرب و اذیت کا شکار ہوتا ہے۔افسانہ نگار نے اس افسانے میں اسی کیفیت کی ترجمانی کی ہے ۔
سوال 3- مہا جر ادب کی اصطلاح سے آپ کیا سمجھتے ہیں ؟ کیا زبر نصاب افسانہ اس زمرے میں ہے ؟ مدلل جواب دیجئے ؟
جواب : ” مہا جرادب ” جدید دور کے ادب کی ایک ادبی اصطلاح ہے ۔ جس کا لغوی معنی ہوتا ہے ہجرت کر نے والی ادب لیکن ادب کے اصطلاح میں”مہا جر ادب ” ایک وسیع تر نظریہ ہے ۔جس کی کئی صورتیں ہیں ۔ مثلا یہ کہ مادری زبان کے علاوہ دیگر ادبیات کے اصطلاحات اپنی مادری زبان میں شامل کر لینا ۔ اس کی بھی دوشکلیں ہیں پہلی یہ کہ کسی زبان کے لفظ کو بعینہ استعمال ہوتا ہے اور اب اردو زبان کا حصہ ہے ۔ دوسری شکل یہ ہے کہ کسی زبان کے لفظ کو جزوی طور پر صورت بدل کر ستعمال کرنا ۔ خیر یہ تو لسانیات کے زمرے میں آئی ہیں ۔
کسی دوسری زبان کے نظریات و خیالات کو اپنے ادب میں فن کے طور پر استعمال کر لینے جو مہا جر ادب کہتے ہیں اس کی بھی دوصورتیں ہیں ۔ پہلی یہ کہ دوسری زبان کی ادبی تخلیق کا اپنی زبان میں ترجمہ کر لینا ۔ اس شکل میں ہم دیگر ادبیات کو اس کے فن کے ساتھ سمجھنے کے لائق ہو جاتے ہیں ۔
اس لئے کہ ترجمہ متن کا ہوتا ہے اور ترجمہ کی شکل میں ہم اس نظریہ کو مستعار لیتے ہیں جو ظاہر ہے ہمارے ادب حصہ نہیں بن سکتا ۔ دوسری شکل یہ ہے کہ ہم دوسرے ادبیات کا مطالعہ کر کے اس کے نظریات و افکار کو اپنی زبان میں ایک نظریہ کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔ اس صورت میں وہ ا فکار ونظریات رفتہ رفتہ ہمارے ادب کا حصہ بن جاتے ہیں ۔ زیر نصاب افسانہ “کٹی ہوئی شاخ “کو ہم کلی طور پر تو نہیں لیکن جزوی طور پر مہا جر ادب کے زمرے میں رکھ سکتے ہیں ۔
سوال 4- کہانی کے مرکزی کردار کی ذہنی و جذباتی کیفیت کو اختصار میں لکھئے ؟
جواب : زیر نصاب کہانی کا مرکزی کردار ہندوستانی سماج کا ایک وقت کا مارا ہوا نو جوان ہے جوتعلیم حاصل کرنے کے بعد وقت کے ہاتھوں مجبور ہوکر اپنے بوڑھے ماں باپ کو چھوڑ کر مادی خوشحالی کی تلاش میں خلیجی ممالک کا سفر کرتا ہے ۔
ہوائی اڈے پر جب وہ ہوائی جہاز کے انتظار میں کھڑا رہتا ہے تو تخیل کی دنیا میں کھونے کے بعد اسے ہندوستانی سماج کی زندگی ایک کنوئیں کے مینڈک کی طرح لگتی ہے اور وہ خوشحال مستقبل کے خوابوں میں کھو جا تا ہے جب جہاز پر سوار ہو جا تا ہے تو ایئر ہوسٹس اس کے سامنے مسکراہٹ کے ساتھ کھانا پیش کرتی ہے تو اسے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا جنت کی حور یں اس کے سامنے من سلوی پیش کر رہی ہوں ۔
وہ اپنی خوش قسمتی پر مخمور ہو جاتا ہے لیکن اگلے ہی لمحہ جب وہی ایئر ہوسٹس بغل کے ایک بوڑھے شخص کو اسی دلنوازمسکراہٹ کے ساتھ کھانا پیش کرتی ہے تو اسے جدید تہذیب کی ملمع سازی کا احساس بھی ہوتا ہے کہ جس مسکراہٹ کو اس نے اپنے لئے مخصوص سمجھ لیا تھا وہ جلوہ عام تھا ۔ پھر اپنے مطلوبہ منزل پر پہنچ کر اس نے ملازمت شروع کیا اور شب وروز کی محنت سے اس نے مختصر مدت میں کار بنگلہ اوراے سی کی سہولت حاصل کر لیا ۔
تب اسے اپنی مشینی زندگی کا احساس ہوا کہ نام دنہادخوشحالی کی تلاش میں وہ رفتہ رفتہ اپنے بال بچوں سے کٹتا جارہا ہے اور ہفتوں سے بچوں سے کھل کر بات بھی نہیں کر سکا ہے یہاں تک کہ جب بوڑھے باپ کے موت کی خبر آئی تو وہ کھل کر رو بھی نہیں سکا یہ حالات اور مادہ پرستی کی ستم ظریفی تھی کہ وہ اپنے جذبات کا کھل کر اظہار بھی نہیں کر سکتا تھا ۔
دنیا کی تمام تر ظاہری آسائشیں موجود تھیں لیکن سکون اور داخلی خوشی نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔اپنے ہم وطنوں اور دوستوں کو بھی وہ اپنے سے مختلف نہیں پاتا تھا ۔ یہاں تک کہ جب وہ اپنے وطن واپس لوٹا تو اپنے اس گھر میں جہاں اس کا بچپن گذرا تھا اور جہاں کے در و دیوار اور ذرہ ذرہ سے اسے جذباتی لگاؤ تھا اسے وہ تمام چیز یں اجنبی معلوم دیتی ہیں جب اسے اس حقیقت کا ادراک ہوا کہ اس کی مثال ایک کٹی ہوئی شاخ کی ہے اپنے جڑ سے کٹ کر اپنی اصلیت کوکھو دیتا ہے اور ایک لفظ بے معنی بن کر رہ جاتا ہے ۔