فرار – محسن عظیم آبادی
यहां हम daraksha urdu book class 10 chapter 3 Farar (فرار) subjective question Bihar board वस्तुनिष्ठ और व्यक्तिपरक प्रदान कर रहे हैं क्योंकि यह कक्षा 10 के छात्रों के लिए बहुत महत्वपूर्ण है क्योंकि हम सभी जानते हैं कि प्रत्येक बोर्ड परीक्षा प्रश्न में वस्तुनिष्ठ और व्यक्तिपरक होता है इसलिए छात्रों को इन प्रश्नों का अभ्यास करना चाहिए ताकि छात्र बोर्ड में अच्छे अंक प्राप्त कर सकते हैं। Bihar Board Class 10 daraksha urdu book class 10 chapter 3 Farar (فرار) subjective question Bihar board यहां हम daraksha urdu book class 10 chapter 3 فرار subjective question प्रदान कर रहे हैं ताकि छात्र अधिक से अधिक अभ्यास करें।
daraksha urdu book class 10 chapter 3 Farar (فرار) subjective question Bihar board
مختصر ترین سوالات مع جوابات
سوال 1. ڈاکٹر محمد محسن کی پیدائش کس شہر میں ہوئی ؟
جواب : ڈاکٹرمحمد محسن کی پیدائش پٹنہ میں ہوئی ۔
سوال 2. ڈاکٹرمحمد محسن کی تاریخ پیدائش بتایے ؟
جواب : ڈاکٹر محمد محسن کی تاریخ پیدائش 1 جولائی ۱۹۱۰ ء ہے ۔
سوال3. زیر نصاب افسانوں میں ڈاکٹر محمد محسن کا کون سا افسانہ ہے ۔
جواب : ڈاکٹرمحسن کا افسانہ فرار ہے ۔
سوال4. ڈاکٹر محمد محسن کے والد کا نام بتائیے ؟
جواب : ڈاکٹر محمد محسن کے والد کا نام سید محمد رشید تھا ۔
سوال 5. ڈاکٹر محمد محسن کس موضوع پر مہارت رکھتے تھے ۔
جواب : ڈاکٹر محمد محسن نفسیات کے موضوع پر مہارت رکھتے تھے ۔
مختصر سوالات مع جوابات
سوال1. ڈاکٹر محمد محسن کی تدریسی سرگرمیوں پر پانچ جملے لکھئے ۔
جواب : ڈاکٹر محمدمحسن بنیادی طور پر نفسیات کے پروفیسر تھے ۔انہوں نے طویل مدت تک پٹنہ یونیورسٹی میں نفسیات کا درس دیا ۔ نفسیات کے استاد کی حیثیت سے ملک بھر میں ان کی ایک شناخت تھی ۔ سب سے پہلے وہ ۱۹۳۸ ء میں پٹنہ کالج کے شعبہ فلسفہ میں عارضی طور پر لکچرر کی حیثیت سے بحال ہوۓ پھر ۱۹۴۸ ء میں پٹنہ یونیورٹی کے شعبۂ نفسیات میں مستقل طور پر لکچرر کی حیثیت سے بحال ہوۓ ۱۹۵۳ ء میں صدر شعبہ نفسیات ہوۓ اور ۱۹۷۴ ء میں اپنی ملازمت سے سبکدوش ہوۓ ۔
سوال2. ڈاکٹر محمدمحسن کی تصنیفات کا ذکر کیجئے ؟
جواب : ڈاکٹر محمد محسن نے اپنے ۲۶ سال کے طویل تدریسی ملازمت میں تدریسی خدمات کے ساتھ نفسیات کے موضوع پر کئی تجربات کئے اور کئی کتابیں لکھیں اور نفسیات کی دنیا میں قبولیت عام حاصل کیں ۔ ان کی تصانیف میں ایک ان کے افسانے کا مجموعہ’’انوکھی مسکراہٹ ‘ ‘ ہے اور نفسیات کے موضوع پر بھی ان کی کئی کتابیں ہیں ان میں’نفسیاتی زوی‘‘اور نفسیاتی مضامین کا مجموعہ ہیں ۔ اور ایک شعری مجموعہ’زخم کے پھول ‘ ‘ بھی نہایت اہم ہیں اس کے علاوہ ان کی دوسری کتابیں بھی شائع ہوئیں ۔
سوال3. محمود کے کردار پر پانچ جملے لکھئے ؟
جواب : ڈاکٹر محمدمحسن کے زیر نصاب افسانہ’فرار‘‘میں محمودمرکزی کردار ہے ۔ دس سال کی عمر میں محمود کے والد کا انتقال ہو جا تا ہے اور چند سال کے بعد اس کی والدہ کا بھی انتقال ہو جا تا ہے چنانچہ قسمت نے اسے تنگ دست ماموں کے گھر پہنچا دیا زندگی میں مصائب اور دشواریوں کا آغاز ہو گیا ناموافق حالات نے جتنا ٹھوکر لگا اسی قدر اس کا تجربہ بڑھتا گیا ۔ کم عمری میں ہی محمودمستقل مزاج اور عزم کی پختگی کامکمل نمونہ بن گیا اعلی تعلیم کے دوران وہ یونیورسٹی کے ہاسٹل میں رہنے لگا جہاں اس کے ذہن میں چور دروازے سے رومانیت داخل ہونے گئی ۔ یونیورسٹی کی تعلیم سے فارغ ہوکر محمود نے مقابلہ جاتی امتحان میں حصہ لیا اور ڈپٹی کلکٹر بن گیا ۔
طویل سوالات مع جوابات
سوال1. ڈاکٹر محسن کی افسانہ نگاری پر ایک مضمون لکھئے ؟
جواب : صوبہ بہار میں اردو افسانے کی روایت بہت مستحکم رہی ہے سہیل عظیم آبادی کے بعد جن لوگوں نے اردو افسانے کے زلف کوسنوارا اور نکھارا ان میں محسن عظیم آبادی کی شخصیت بھی نہایت اہم ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ سید محمد حسن کا شمار اردو کے اہم افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے ۔ وہ بنیادی طور پر نفسیات کے پروفیسر تھے اور نفسیات ان کا خاص موضوع تھا لیکن نفسیات کے استاد ہونے کے باوجودانہوں نے اردو افسانے کی طرف بھی توجہ دی اور کئی معرکۃ الاراءافسانے لکھے ۔ چنانچہ ان کے افسانوں کا ایک مجموعہ’’انوکھی مسکراہٹ ‘ ‘ اردو افسانے کی دنیا میں بہت ہی مقبول و معروف ہوا ۔ ’ ’ انوکھی مسکراہٹ ‘ ‘ ان کے افسانوں کے مجموعہ کا نام ہے لیکن اس مجموعہ میں ’ ’ انوکھی مسکراہٹ ‘ ‘ کے عنوان سے ایک افسانہ بھی ہے جس کی اہمیت و مقبولیت کی وجہ سے مجموعے کا نام بھی ’ ’ انوکھی مسکراہٹ ‘ ‘ رکھا گیا ۔ ’ ’ انوکھی مسکراہٹ‘ایک خالص نفسیاتی نوعیت کا افسانہ ہے جس کی مرکزی کردار رجنی ہے ۔ رجنی ایک گورکن کی بیٹی ہے گورکن قبرستان کے پاس رہتا ہے اور مردوں کے لئے قبر کھود کر اپنے بچوں کی پرورش کرتا ہے ۔ چنانچہ قبرستان میں جب کوئی مردہ آتا تھا تو آمدنی کی خوشی میں رجنی مسکرا اٹھتی تھی ۔ رفتہ رفتہ مردے کو دیکھ کر مسکرانا رجنی کی فطرت ثانیہ بن گئی ۔ نفسیات کا یہی نکتہ ہے جسے محسن عظیم آبادی نے اپنے افسانہ انوکھی مسکراہٹ میں اجاگر کیا ہے ۔ یعنی مردہ کو دیکھ کر رجنی مسکرا دینے کی اس قدر عادی ہو چکی تھی کہ خود اپنے باپ کی موت پر بھی مسکرا اٹھی اور شادی کے بعد جب سسرال گئی تو وہاں بھی یہی کیفیت تھی یہاں تک کہ اپنے بیٹے اور شوہر کی موت پر بھی مسکرا اٹھی محلہ کے لوگوں نے سمجھا کہ یا تو یہ ڈائن ہے یا پھر رجنی پرکسی بھوت جنات کا سایہ ہے اسی نفسیاتی گتھی کو ڈاکٹر محسن نے افسانہ ’ ’ انوکھی مسکراہٹ ‘ ‘ میں سلجھانے کی کوشش کی ہے ۔ اسی لئے افسانہ انوکھی مسکراہٹ ‘ ‘ کواردو کے بہترین افسانوں میں شمار کیا جا تا ہے ۔
سوال2. افسانہ فرار کا مرکزی خیال بیان کیجئے ؟
جواب : زیر نصاب افسانہ فرار محسن عظیم آبادی کا نفسیاتی افسانہ ہے ۔ اس افسانے کا مرکزی کردار محمود نام کا ایک نو جوان ہے ۔ افسانہ نگار نے اس افسانے میں اس کردار کا نفسیاتی تجزیہ کیا ہے ۔ افسانے کا مرکزی کردار محمود حصول تعلیم کے لئے سرگرداں رہتا ہے اور وہ عام نو جوانوں کے پر خلاف ہاسٹل میں ایک ایسی مثالی زندگی گذارنا چاہتا ہے جو ایک اچھے طالب علم کی پہچان ہوتی ہے لیکن ساتھیوں کے ورغلانے پر بشری تقاضے کے تحت وقتی طور پر تفریح کی طرف بھی مائل ہو جا تا ہے لیکن وہ ایک نفسیاتی الجھن کا بہر حال شکار رہتا ہے بچپن میں اپنے گھر میں ماں کی سخت مزاجی ، شدت پسندی اور باپ پر بیجا حکمرانی کا منظر نامہ اسے لاشعوری طور پر عورت سے متوحش اور متنفر کر دیتا ہے اس نفسیاتی کشمکش کی حالت میں وہ تعلیم سے فراغت حاصل کر لیتا ہے ۔ اس کے مقابلہ جاتی امتحان میں شامل ہو کر کامیابی حاصل کر لیتا ہے اور محمود کو ڈ پٹی کلکٹر کی اعلی ملازمت مل جاتی ہے اور شادی کے لئے اس کے یہاں بڑے بڑھے گھرانوں سے پیغام آنے لگتے ہیں ۔ ایک دن محمود گھر واپس آ تا ہے تو اسے گھر کی ویرانی کا ٹنے لگتی ہے اور زندگی ایک بے روح نقل نظر آنے لگتی ہے یہاں تک کہ اس ویرانے میں دیوار گھٹری کی ٹک ٹک کرتی ہوئی اسے دماغ پر ہتھورے مارنے لگتی ہے دیوار گھڑی کا پنڈولم اسے اپنی ذات کا مرقع معلوم ہونے لگا ۔ ویسا ہی ایک طریقہ اور ایک رنگ پر حرکت کرتا ہوا وہ جب تک مشینوں کی طرح زندگی گذرتا رہے گا آخر کاران رشتوں میں سے ایک کے یہاں اس نے بات پختہ کرلیا اور عقد بھی ہو گیا لیکن رخصتی لڑکی کے میٹر یکولیشن پاس کرنے تک ملتوی رکھا گیا ۔ امتحان کا نتیجہ آ گیا اور منکوحہلڑ کی زبیدہ اچھے نمبروں سے کامیاب ہوگئی محمود بھی اب شادی کے تصور اور اس کے لذتوں سے سرشار ہونے لگا ۔ آخر کار دھوم دھام سے بارات لے گیا اور رخصتی بھی ہوگئی ۔
لیکن جب وہ شادی کی پہلی رات سسرال میں زنان خانہ کے اندر داخل ہوتا ہے تو اسے اپنے گھر کا وہ گھٹن بھرا ماحول نظر آنے لگتا ہے جہاں عورت غلط انداز میں مرد کو دباتی اور اس کی تذلیل کرتی ہے اس نفسیانی نکتے نے اسے ازدواجی فرائض سے خوفزدہ کر دیا اور اس کی شخصیت نامکمل رہ گئی