ہندوستانی آئین کے معمار
यहां हम daraksha urdu book Class 10th urdu chapter 9 Hindustan Aayin ke myamar subjective question ہندوستانی آئین کے معمار वस्तुनिष्ठ और व्यक्तिपरक प्रदान कर रहे हैं क्योंकि यह कक्षा 10 के छात्रों के लिए बहुत महत्वपूर्ण है क्योंकि हम सभी जानते हैं कि प्रत्येक बोर्ड परीक्षा प्रश्न में वस्तुनिष्ठ और व्यक्तिपरक होता है इसलिए छात्रों को इन प्रश्नों का अभ्यास करना चाहिए ताकि छात्र बोर्ड में अच्छे अंक प्राप्त कर सकते हैं। Bihar Board Class 10 Urdu daraksha urdu book class 10 chapter 9 subjective question यहां हम daraksha urdu book class 10 chapter 9 ہندوستانی آئین کے معمار subjective question प्रदान कर रहे हैं ताकि छात्र अधिक से अधिक अभ्यास करें।
ہندوستانی آئین کے معمار Class 10th urdu chapter 9 Hindustan Aayin ke myamar
مختصرترین سوالات مع جوابات
سوال1- بھیم راؤ امبیڈ کر کی پیدائش کب اور کہاں ہوئی ؟
جواب : بھیم راؤ امبیڈکر کی پیدائش ۱۸۹۱ میں کو میوسنٹرل انڈیا میں ہوئی ۔
سوال2- بھیم راؤ امبیڈ کر کے والدین کے نام لکھئے ؟
جواب : ان کے والد کا نام رام جی مالو جی سکپال اور والدہ کا نام بھیما بائی تھا ۔
سوال 3- بھیم راؤ کے والدفوج میں کس عہدے سے سبکدوش ہوۓ ؟
جواب : بھیم راؤ امبیڈ کر کے والد جس وقت فوج کے عہدے سے سبکدوش ہوۓ تو وہ دوسرے گریڈ میں صوبے دار میجر کے عہدہ پر فائز تھے ۔
سوال 4- بھیم راؤ کی شادی کس عمر میں اور کس سے ہوئی ؟
جواب : بھیم راؤ کی شادی چودہ سال کی عمر میں 9 سال کی لڑکی را ما بائی سے ہوئی ۔
سوال 5- بی اے کرنے کے لئے بھیم راؤ نے کس کالج میں داخلہ لیا ؟
جواب : بی اے کرنے کے لئے بھیم راؤ نے ایلیفسٹن کا لج میں داخلہ لیا ۔
سوال6- بدھ مذہب میں”نروان “کا کیا تصور ہے ؟
جواب : بدھ مذہب میں”نروان” کا تصور عرفان حاصل کرنا ہے ۔
مختصر سوالات مع جوابات
سوال 1- اسکول میں بھیم راؤ کے ساتھ طلبہ اور اساتذہ کا سلوک کیسا تھا ؟
جواب : ممبئی کے ایلیفسٹن ہائی اسکول میں بھیم راؤ امبیڈ کر پڑھتے تھے اس اسکول کا ماحول بھیم راؤ کے لئے پر سکون نہ تھا یہ سرکاری سر پرستی میں چلنے والا اسکول تھا ۔ اس کے باوجود یہاں بھی بھیم راؤ کے ساتھ ذات پات کا بھید بھاؤ کیا جا تا تھا ۔ صرف اسکول کے طلبہ ہی انہیں حقارت اور نفرت کی نگا ہ سے نہیں دیکھتے تھے بلکہ اس اسکول کے اساتذہ کا سلوک بھی بھیم راؤ کے ساتھ نفرت اور حقارت کا تھا ۔
سوال 2-بھیم راؤ کا خاندان بمبئی جا کر کیوں بس گیا ؟
جواب: بھیم راؤ کے والد رامو جی ستارہ کے ایک فوجی اسکول میں ماسٹر تھے ۔ جہاں چند سالوں کے بعد راموجی کی ستارہ کی نوکری ختم ہوگئی تو انہوں نے ستارہ کو چھوڑ دینے کا ارادہ کر لیا اور طے ہوا کہ بمبئی جا کر سکونت اختیار کیا جائے ۔ چنانچہ راموجی اپنے پورے خاندان کے ساتھ بمبئی منتقل ہو گئے ۔
سوال 3- بھیم راؤ کے حصول تعلیم پر پانچ جملے لکھئے ۔
جواب : ۱۹۱۲ ء میں بھیم راؤ امبیڈ کر نے ایلیفسٹن کالج سے بی اے پاس کیا اس کے بعد وہ بڑودہ اسٹیٹ سے تعلیمی وظیفےپر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کےلئے امریکہ چلے گے اور کولمبیا یونیورسٹی میں داخلہ لیا جہاں معاشیات کے موضوع پر ایم اے پاس کیا پھر 1916 ء میں اسی یونیورسٹی سے معاشیات میں پی ایچ ڈی کیا اسی سال وہ انگلینڈ چلے گئےاور لندن اسکول آف اکنا مکس میں داخلہ لیا اور اسی کے ساتھ بیرسٹری کی تیاری بھی کرتے رہے
سوال4- بھیم راؤ امبیڈ کر کی آئینی خدمات کو مختصر اً بیان کیجئے ۔
جواب: بھیم راؤ امبیڈ کر نے ملک و قوم کی اہم خدمات انجام دیں ۔ اس لئے ان کا شمار جدید ہندوستان کے معماروں میں ہوتا ہے ۔ ان کے کارناموں کی فہرست بہت طویل ہے ۔ ووعملی سیاست کے میدان میں بھی کو دے اور کامیاب رہے ۔ جب ہندوستان کو آزادی ملی تو ملک کے آئین سازی کا مرحلہ در پیش ہوا تو آئین سازی کے لئے دستور ساز کمیٹی میں بھیم راؤ اس کمیٹی کے صدر بناۓ گئے اور انہیں کی صدارت میں موجودہ آئین ہند کی تکمیل ممکن ہوسکی ۔
طویل سوالات مع جوابات
سوال1- بھیم راؤ امبیڈ کر کی سوانح لکھئے ۔
جواب : بھیم راؤ امبیڈ کر کی پیدائش مراٹھی زبان بولنے والے ایک اچھوت اور مہار خاندان میں ۱۴ اپر یل ۱۸۹۱ ء کو ہوئی ۔ جاۓ پیدائش کومیو،سنٹرل انڈیا ہے ان کے والد کا نام راموجی مالو جی سکپال اور والدہ کا نام بھیمابائی تھا ۔ وہ اپنے والدین کی چود ہو یں اور سب سے چھوٹی اولاد تھے ۔ گھر کے لوگ پیار سے انہیں بھیما کہتے تھے ۔ چنانچہ بھیم راؤ کے نام سے انہوں نے اپنی تعلیم مکمل کی ۔ان کے والد رامو جی سکپال برطانوی حکومت کی فوج میں ملازم تھے ۔ اس زمانہ میں برٹش سرکار نے فوج میں کام کرنے والوں کے لئے تعلیم کو لازمی قرار دے رکھا تھا ۔ سرکاران فوجیوں کے بچوں اور عورتوں کے لئے اسکول چلاتی تھی ۔ بھیم راؤ کے والد رامو جی اور دادا مالو جی دونوں ایسے خوش قسمت مہار تھے جن کے بچوں کو تعلیم کا فائدہ پہنچا ۔
بھیم راؤ کے والد فوجی ملازمت سے سبکدوشی کے بعد ستارا کے ایک اسکول میں تدریسی ملازمت کرنے لگے ۔ یہاں چھاؤنی کے سرکاری اسکول میں بھیم راؤ کا داخلہ ہو گیا ۔ بھیم راؤ جب چھ سال کے تھے تو والد ہ بھیمابائی کا انتقال ہو چکا تھا ۔ اس لئے ان کی پھوپھی نے پورے خاندان کا دیکھ بھال کرنا شروع کر دیا –
بھیم راؤ کواب اس کڑوی سچائی کا علم ہونے لگا تھا کہ وہ پیدائشی طور پرا چھوت ہیں ۔آگے چل کر ان کی زندگی میں ایسے واقعات رونما ہوۓ کہ انہیں اپنے مذہب اور ہم مذھبوں سے نفرت ہونے لگی ۔ یہاں تک کہ جب وہ بمبئی کے ایلیفسٹن ہائی اسکول میں پڑھتے تھے تو وہاں بھی انہیں اساتذہ اور طلبہ کی طرف سے نفرت و حقارت کا شکار ہونا پڑتا تھا اور بھیم راؤ خاموشی کے ساتھ اپنی اس ذلت کو برداشت کرتے تھے ۔
اس ناموافق صورت حال میں بھیم راؤ نے اپنی تعلیم کو جاری رکھی اور ۱۹۰۸ ء میں میٹرک کا امتحان پاس کر لیا ۔ مہار ذات کے لوگوں کے لئے یہ بڑے فخر کی بات تھی چنانچہ مہار ذات کے لوگوں نے ایک جلسہ کیا اور بھیم راؤ کومبارک باد دی جس سے بھیم راؤ کی حوصلہ افزائی ہوئی ۔ پھر ایلیفسٹن کالج سے ۱۹۱۲ ء میں بی اے کیا اور بڑودہ اسٹیٹ سے تعلیمی وظیفہ پر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے امریکہ چلے گئے جہاں سے ۱۹۱۸ ء میں معاشیات میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کیا پھرلندن جا کر بیرسٹری کیا ۔ پھر ہندوستان واپس آ کر وکالت کرنے لگے اور اسی وقت سے سماجی اور سیاسی سرگرمیوں میں بھی حصہ لینے لگے ۔
انہوں نے ہندوستانی سماج میں چھوا چھوت کے رواج سے بیزار ہو کر بودھ مذہب قبول کرلیا آزادی کے بعد جب آئین ساز کمیٹی بنی تو بھیم راؤ امبیڈ کر کو اس کمیٹی کا صدر بنایا گیا ۔ آخر کار ہندوستانی آئین کے اس معمار کا انتقال1956 ء میں ہو گیا ۔
سوال 2- ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈ کر کی آئینی خدمات کا جائزہ لیجئے ۔
جواب : ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈ کر کی شخصیت ایک قانون داں کی حیثیت سے نہایت اہم ہے اور ان کا شمار ہندوستانی آئین کے معماروں میں ہوتا ہے ۔ یوں تو بھیم راؤ امبیڈ کر کے آئینی و سماجی کارناموں کی فہرست بہت طویل ہے وہ یورپ و امریکہ سے واپس آ کر سیاست کے میدان میں بھی کو دے اور کامیاب رہے ۔ چنانچہ اس دور کے اہم سیاسی رہنماؤں مثلاً گاندھی جی اور نہرو جی سے بھی ان کے قریبی تعلقات رہے ۔ چنانچہ آزادی کے بعد جب ملک میں دستور سازی کا معاملہ در پیش ہوا تو دستور ساز کمیٹی میں بھیم راؤ امبیڈ کرصدر کے عہدہ پر فائز کئے گئے ۔
چنانچہ بھیم راؤ امبیڈ کر نے ہندوستان کی آئین سازی میں کلیدی رول ادا کیا انہوں نے ہمارے ملک کو وہ دستور دیا جو مذ ہب ، ذات عقید ہ اور جنس کے امتیاز کوختم کرتا ہے اور اس بات کا عزم کرتا ہے کہ ملک کے تمام لوگوں کو یکساں مواقع فراہم کرے گا یہ دستور مر دمرد کے درمیان، عورت اور مرد کے بیچ مساوات کا جذ بہ قائم کرتا ہے ۔ اس میں عام لوگوں کو شادی ، بیاہ ، طلاق ، گود لینے ، وراثت اور تعلیم کے حقوق دیئے گئے ہیں ۔
اس طرح بھیم راؤ امبیڈ کرنے ہندوستان کی دستور سازی میں ایک اہم اور تاریخ کر دار ادا کیا ہے ۔ اس کے علاوہ دستور ہند میں سیکولرازم کا تصور پیش کر کے ہندوستان کے کثیر مذہبی اور کثیر لسانی معاشرے میں مساوات پیدا کرنے کی کامیاب کوشش کی جو ہندوستانی جمہوریت کے روشن مستقبل کی ضمانت ہے ۔
سوال3- آزاد ہندوستان کے معاشرتی انقلاب میں امبیڈ کر کی خدمات پر روشنی ڈالئے ؟
جواب : یوروپی ممالک میں اعلیٰ تعلیم سے فراغت اور وطن واپسی کے بعد بھیم راؤ امبیڈ کر نے وکالت کا پیشہ اختیار کیا اور اس وقت سے وہ معاشرتی اصلاح اور سیاسی سرگرمیوں میں بھی حصہ لینے لگئے اس دوران انہوں نے اپنے آپ کو صحافت سے بھی جوڑ لیا ۔ معاشرتی اصلاح کے لئے انہوں نے کئی سیاسی اور سماجی تنظیمیں قائم کیں اور آخر کار انہوں نے اچھوت سمجھی جانے والی ذاتوں میں ایک زبردست انقلاب پیدا کر دیا جس کے اثرات آج واضح طور پر دکھائی دیکھتے ہیں ۔
انہوں نے اچھوتوں کو یہ صلاح دی کہ ہم اس وقت تک کوئی ترقی نہیں کر سکتے جب تک کہ ہم تین مرحلوں میں اپنے اندر کی صفائی نہیں کر لیتے ہمیں اپنے عام اخلاقی برتاؤ کو اوپر اٹھانا ہوگا اپنے تلفظ کو سدھاکرنا ہوگا اور خیالات کونئی طاقت دینی ہوگی ۔ میں آپ سے کہتا ہوں کہ آپ عہد کر لیں کہ آپ مردہ یا سڑے ہوۓ جانوروں کا گوشت نہیں کھائیں گے ۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے درمیان سے اونچ نیچ کے بھید بھاؤ کو ختم کر یں آپ یہ بھی عہد کیجئے کہ آپ بچے کھچے اور پھینکے ہوۓ ٹکڑے نہیں کھائیں گے ۔ ہم خود صرف اس صورت میں اوپر اٹھ سکتے ہیں اگر ہم اپنی مدد آپ کر یں ۔ اپنی عزت نفس دوبارہ حاصل کر یں اور اپنی طاقت کو جانیں ۔
بھیم راؤ نے جو تحریک چلائی اس کی اونچی ذات کے لوگوں کی طرف سے زبردست مخالفت ہوئی لیکن انہوں نے حوصلہ نہیں ہارا ۔ انہوں نے قانونی طور پر بھی مخالفین کی مخالفت کا جواب دیا اور وہ جس تحر یک یامشن کو لے کر چلے تھے۔اس میں کامیابی حاصل کی انہوں نے ملک وقوم کی اہم خدمات بھی انجام دیں ۔
بھیم راؤ امبیڈ کر ہندوستانی سماج میں چھوا چھوت کے رواج سے بہت ہی برہم اور بیزار تھے اس لئے انہوں نے بدھ مذہب قبول کرلیا ان کے اس قدم سے متاثر ہو کر دوسرے اچھوت طبقہ کے لوگوں نے بھی کثیر تعداد میں اپنامذہب تبدیل کرلیا اور بودھسٹ ہو گئے ۔ آگے چل کر وہ صرف اچھوتوں کے رہنما ہی نہیں رہے بلکہ ہندوستانی قوم کے رہنما سمجھے جانے لگے ۔ وہ بدھ مذہب کے لوگوں میں بھی احترام کی نظر سے دیکھے جانے لگے ۔ مذہبی تقاریب اور تقاریر کے سلسلے میں انہیں ان ممالک سے بھی دعوت نامے ملنے لگے جہاں بودھسٹوں کی کافی تعداد ہے وہ بہت سارے اعزازات اور انعامات سے بھی نوازے گئے ۔انہیں ہندوستان کے اعلیٰ ترین اعزاز” بھارت رتن “سے بھی نوازا گیا ۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں بھیم راؤ امبیڈ کرنے ہندوستان کے فرسودہ سائی بناوٹ میں اپنی بے پناہ جرات اور جسارت سے ایک انقلاب برپا کر دیا ۔