यहां हम Class 10th urdu chapter 10 daraksha solutions Urdu Drama Nigari Aur Aghashan subjective question اردو ڈرامہ نگاری اور آغا حشر वस्तुनिष्ठ और व्यक्तिपरक प्रदान कर रहे हैं क्योंकि यह कक्षा 10 के छात्रों के लिए बहुत महत्वपूर्ण है क्योंकि हम सभी जानते हैं कि प्रत्येक बोर्ड परीक्षा प्रश्न में वस्तुनिष्ठ और व्यक्तिपरक होता है इसलिए छात्रों को इन प्रश्नों का अभ्यास करना चाहिए ताकि छात्र बोर्ड में अच्छे अंक प्राप्त कर सकते हैं। Bihar Board Class 10 Urdu daraksha urdu book class 10 chapter 10 subjective question यहां हम daraksha urdu book class 10 chapter 10 اردو ڈرامہ نگاری اور آغا حشر subjective question प्रदान कर रहे हैं ताकि छात्र अधिक से अधिक अभ्यास करें।
Class 10th urdu chapter 10 daraksha solutions – Urdu Drama Nigari Aur Aghashar
مختصر ترین سوالات مع جوابات
سوال:١ لطف الرحمن کی پیدائش کب اور کہاں ہوئ؟
جواب: لطف الرحمن کی پیدائش چھپر ضلع کے بنیار پور گاؤں میں ۱۹۳۱ ء میں ہوئی ۔
سوال:٢ لطف الرحمن کس پارٹی کے وزیر اور ایم ایل اے رہے ؟
جواب : لطف الرحمن راشٹر یہ جنتادل پارٹی کے وزیر اور ایم ایل اے رہے ۔
سوال :٣ لطف الرحمن کی کسی دو کتاب کا نام لکھئے ۔
جواب : لطف الرحمن کی دو کتاب ہیں : (١) تازگی برگ و نوا (٢) تعبیر وتنقید
سوال :٤ آغا حشر کے کسی ایک ڈراما کا نام لکھئے ۔
جواب : آغا حشر کے ایک ڈراما کا نام رستم و سہراب ہے –
سوال ۵ – ڈراما کی تکمیل کا لازمی عنصر کیا ہے ؟
جواب : ڈراما کی تکمیل کا لازمی عنصر آتی ہے-
مختصر سوالات مع جوابات جواب
سوال:١ لطف الرحمن کی زندگی کے بارے میں پانچ جملے لکھئے ۔
جواب : لطف الرحمن کا ادبی نام بھی وہی ہے جو اصلی نام ہے ۔ ان کی پیدائش چھپرہ ضلع کے بنیار پور قصبہ میں ۱۹٤۱ ء میں ہوئی ۔ والد کا نام مولوی عبدالغفور تھا اور والدہ کا نام بی بی آمنہ خاتون تھا ۔ ان کا آبائی وطن ریونڈ ھاضلع دربھنگہ اور بنیار پور میں نانیہال تھا جہاں ان کی پیدائش ہوئی ۔ ابتدائی تعلیم بنیار پور میں ہی حاصل کیا پھر چند سال ریونڈ ھا میں بھی رہے ۔ لطف الرحمن بچپن سے ہی ذہین و فطین تھے ۔ اس لئے تعلیم کو جاری رکھا اور ایم اے پی ایچ ڈی تک تعلیم حاصل کیا ۔ اور بھاگلپور یونیورسٹی میں لکچررشپ سے اپنی ملازمت کا آغاز کیا ۔
سوال :٢ مضمون نگاری کی مختصر تعریف لکھئے ۔
جواب : کسی خاص موضوع پر جو سنجید ہ تحر یرلکھی جائے اسے ادبی اصطلاح میں مضمون کہتے ہیں ۔ انگریزی ادب میں اس کے لئے”ایسے” (Essay) کا لفظ مخصوص ہے ۔
مضمون کی کئی قسمیں ہیں اور اکثر موضوع یا انداز تحریر کی وجہ سے انہیں الگ سے پہچانا جاتا ہے ۔ جس تحریر میں شعر وادب کی تفہیم اور تعبیر وتشریح کی جاۓ اسے تنقیدی مضمون کہا جا تا ہے جس تحریر میں لکھنے والے کا نقطہ نظر علمی ہواسے علمی مضمون کہتے ہیں اسی طرح انشائیہ بھی مضمون ہی کی ایک قسم ہے ۔
سوال:٣ تنقید کے بارے میں پانچ جملے لکھئے-
جواب : لفظ تنقید “نقد” سے مشتق ہے جس کے معنی کھرے اور کھوٹے کی پرکھ کرنا ہے ادب کی اصطلاح میں تنقید اس عمل کو کہتے ہیں جس میں کسی ادبی نگارش کی خوبیوں اور خامیوں کا جائزہ لیا جا تا ہے ۔ تنقید کی وجہ سے تخلیق میں نکھار پیدا ہوتا ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ عام طور پر تنقید میں کسی تخلیق کی خامیوں کو اجاگر کیا جا تا ہے جبکہ کسی ادبی تخلیق کی خوبیوں کو اجاگر کرنا بھی تنقید ہی کے زمرے میں آتا ہے ۔
سوال:٤ ڈراما کی مختصر تعریف کیجئے ؟
جواب : اردو کی نثری ادب میں ڈراما بھی ایک اہم صنف ہے ۔ ناول کی طرح ڈراما بھی طویل کہانی کی ایک قسم ہے ۔ جس طرح ناول میں کسی معاشرے یا خاص ماحول پر کہانی کی شکل میں مختلف زاویئے سے روشنی پڑتی ہے اسی طرح ڈراما میں بھی ایک طویل کہانی پیش کیا جا تا ہے اور کرداروں کے ذریعہ اس کے نقل و حرکت سے معاشرے اور ماحول کی عکاسی ہوتی ہے ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ڈراما میں اسٹیج پر افراد قصہ عملی مظاہرہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں-
سوال :٥ آغاز حشر کشمیری کی ڈراما نگاری پر پانچ جملے لکھئے ؟
جواب : اردو ڈراما کی تاریخ میں آغا حشر کشمیری کی خدمات کوفراموش نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ بعض تذکرہ نگاروں نے ڈراما نگاری کے فن میں آغاحشر کو اردو کا شکسپیئر تک قرار دیا ہے ۔ چنانچہ آغا حشر پہلے ڈراما نگار ہیں جنہوں نے سب سے پہلے عصری زندگی کی حقیقتوں کو موضوع فن کی حیثیت دی ۔۔ انہوں نے اپنے ڈراموں میں سماجی اور معاشرتی مسائل کو جگہ دی ۔ چونکہ اردو ڈراما نگاری میں آغاز حشر کواولیت حاصل ہے اس لئے جد ید ڈراما نگاری کا آغاز آغا حشر کشمیری سے ہی ہوتا ہے ۔
طو میں سوالات کے جوابات
سوال:١ لطف الرحمن کی تنقید نگاری پر ایک مضمون لکھئے ۔
جواب : اردو تنقید میں پروفیسر لطف الرحمن کی خدمات قابل قدر ہیں ۔انہوں نے اپنی تنقیدی تصانیف کے ذریعہ اردو تنقید کے سرماۓ میں قابل قدر اضافہ کیا ہے ۔ لطف الرحمن کو طالب علمی کے زمانے سے ہی مضمون نویسی سے خاصی دلچسپی تھی۔تنقید نگاری، افسانہ نگاری اور شعر و شاعری ان کے خاص موضوعات رہے ہیں ۔ تنقید کے موضوع پر ان کی متعدد کتابیں بھی منظر عام پر آ چکی ہیں ۔ جس میں جدیدیت کی جمالیات ، نقد نگاہ ،نثر کی شعریات ، راسخ عظیم آبادی، تعبیر وتنقید اور شہر وفا وغیرہ خاص طور سے قابل ذکر ہیں ۔ جن میں اردوتنقید کے تعلق سے لطف الرحمن کے واضح نظریات ابھر کر سامنے آۓ ہیں ۔
لطف الرحمن نے زیر نصاب تنقیدی مضمون” اردو ڈراما نگاری اور آغا حشر “پر اظہار خیال کرتے ہوۓ اس بات کی طرف واضح اشارے کئے ہیں کہ اب تک آغا حشر کواردو کاشکسپیئر کہا گیا تو دوسری طرف ایک متضاد رائے یہ پیش کی گئی کہ آغا حشر ایک عامیانہ اور سطحی مذاق کے تخلیق کار تھے ۔ اس صورت حال کو لطف الرحمن آغاز حشر کے ساتھ ناانصافی سے تعبیر کرتے ہیں ۔ ڈرامہ لکھنے والوں اور انہیں منظر عام میں مقبول بنانے کی تمام کوششوں میں ایک طرف انہوں نے اتنی عجلت دیکھائی کہ وہ ایک خاص سطح کے فنکار بن کر رہ گئے ۔ دراصل ہوتا یہ ہے کہ سنیما ہو یا ڈراما اورافسانہ وہ زمانے کاعکاس ہوتا ہے جس میں وہ لکھا جا تاہے اس کےعلاوہ اس میں زمانی اور مکانی حدود سے آگے کے بھی بہت سارے نکات چھپے ہوتے ہیں ۔
مختصر یہ کہ لطف الرحمن کی شخصیت ایک تنقید نگار کی حیثیت سے بہت ہی متوازن اور سنجیدہ ہے وہ نہ تو کلیم الدین احمد کی طرح تنقید نگاری میں انتہا پسندی کے قائل ہیں اور نہ ہی صالح تنقید کے نام پرقصیدہ خوانی کے قائل ہیں ۔
سوال:٢ آغا حشر کشمیری کی ڈراما نگاری پر روشنی ڈالئے ۔
جواب : اردوڈراموں کی تاریخ میں آغا حشر کشمیری کی خدمات نا قابل فراموش ہیں ۔ آغا حشر کی ڈ راما نگاری کا آغا را ۱۹٠ ء میں ہوا ۔ اس وقت اردو ڈراما نگاری اپنی پرانی ڈگر پر چل رہی تھی۔ آغا حشر بھی اپنے ابتدائی دور میں اپنے پیش روؤں طالب بنارسی ، بیتاب دہلوی اور احسن لکھنوی سے گہرے طور پر متاثر رہے حقیقت تو یہ ہے کہ ان کے مشق کا زمانہ تھاوہ ناٹک اور اسٹیج کی دنیا میں نووارد تھے مگر جلد ہی ان کی ریاضت اور مشق نے انہیں منفرد تخلیقی شعور کا حامل بنادیا ۔ چنانچہ انہوں نے ڈرامے کی بنی ڈگر سے انحراف کیا ۔ آغا حشر پہلے ڈراما نگار ہیں جنہوں نے سب سے پہلے عصری زندگی کے حقائق کو موضوع اور فن کی حیثیت دی ۔انہوں نے اپنے ڈراموں میں سماجی اور معاشرتی مسائل کو جگہ دی۔جد یدار دوادب و شاعری میں جواؤلیت محمد حسین آزاد ، حالی اور شبلی کو حاصل ہے وہی مقام اردو ڈراما نگاری میں آغا حشر کو حاصل ہے ۔ یہ بھی ایک بدیہی حقیقت ہے کہ اردو میں جدید ڈراما نگاری کا آغاز آغا حشر کشمیری سے ہوا ۔
آغا حشر کے ڈراما نگاری کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے مسجع اور مقفی عبارت آرائی کی جگہ عوامی گفتگو اور لب ولہجہ کو عام کرنے کی روایت قائم کی ۔ ڈرامے کی زبان کو اردو نثر کی ارتقائی تحریک سے ہم آہنگ کر کے اردو ڈراما نگاری کے اسلوب میں ایک انقلاب پیدا کیا ۔
غزلوں اور گیتوں کے حد سے زیادہ استعمال میں اعتدال و توازن پیدا کیا ۔ ان کی زبان و اسلوب میں بھی جدت و ندرت موجود ہے ۔
اسٹیج ڈراما نگاری کی روایت کو مقبول عام بنانے اور استحکام بخشنے والوں میں آغا حشر صف اول کے فنکار ہیں ۔ اردو ڈراما کو موضوع فن اور اسلوب کی سطح پر انہوں نے بلندی سے آشنا کیا اور عصری زندگی و معاشرتی تقاضوں ، عوامی شعور کی بیداری اور آزادی و انقلاب کی تحریک کو فعال اور دو آتشہ بنانے میں انہوں نے لازوال حصہ لیا ۔
سوال:٣ اردو میں تنقید کے آغاز وارتقا پر روشنی ڈالئے ۔
جواب : کھرے اور کھوٹے کی پرکھ ہی اصلا ًتنقید ہے ادب کی اصطلاح میں اس کے معنی کسی ادبی فن پارے کے خوبی یا خامی کا غیر جانب دارا نہ انداز میں جائزہ لینا ہے ، پھر اس بنیاد پر ناقد کی جوراۓ قائم ہوتی ہے دراصل وہی تنقید ہے ۔
عام طور پر تنقید کی تعریف میں دانش وروں کے درمیان تضاد پایا جا تا ہے ۔ کسی کا خیال ہے کہ ادب کو پرکھنا ہی تنقید ہے ۔ کسی کا خیال ہے کہ فنکار پر لعن طعن کرنا ہی تنقید ہے اور اس کا مقصد برا بھلا کہنے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں ہے مگر سچ تو یہ ہے کہ فن کا مطالعہ خواہ وہ نفسیاتی ، تاثراتی ، لسانیاتی ، اسلوبیاتی مطالعہ اور اس تجزیے سے اخذ کئے ہوۓ مفید نتائج ہی اصلا ًتنقید ہے ۔
اردو میں تنقید کی روایت بہت پرانی ہے ۔ عام طور سے کہا جا تا ہے کہ اردو میں تنقید کا آغاز حالی کی تصنیف ’ مقدمہ شعر و شاعری ‘ سے ہوا لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے ۔ اس لئے کہ اٹھارہویں صدی میں شعراء وادباء کے جو تذکرے لکھے گئے ہیں ان تذکروں میں مذکورہ شعراء کی سوانح کے ساتھ ان کے کلام پر تبصرے بھی موجود ہیں اور ان تبصروں کوتنقید کی خشت اول کہا جا سکتا ہے ۔ چنانچہ اس سلسلہ میں میرتقی میر کی نکات الشعراء خاص طور سے قابل ذکر ہے ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ ان تذکروں میں تنقید کوفن کی حیثیت حاصل نہیں تھی ۔ جسے باضابطہ فنی حیثیت حالی کی ” مقدمہ شعر و شاعری ” اور شبلی کی ” موازنہ انیس و دبیر ” سے حاصل ہوئی حالی اور شبلی کے بعداردوتنقید کا سفر تیزی سے طے ہوا اور آج کلیم الدین احمد ، ڈاکٹر عبد المغنی اور لطف الرحمن جیسے متعددتنقید نگاروں کی نگارشات موجود ہیں ۔
سوال:٤ اسم کی تعریف کیجئے اور اس کے اقسام بیان کیجئے ۔
جواب : اسم کی تعریف : کسی بھی آدمی ، جگہ یا چیزوں کے نام کو اسم کہا جا تا ہے ۔
جیسے : احمد ، گنگا ، پٹنہ اور قلم وغیرہ ۔
معنی کے اعتبار سے اسم کی دوقسمیں ہیں : (١) اسم معرفہ (٢)اسم نکر
(١) اسم معرفہ: اس اسم کو کہتے ہیں جس سے کسی خاص جگہ ، آدمی یا چیزوں کا نام معلوم ہو
جیسے گنگا ایک خاص ندی کا نام ہے ۔ ہمالیہ ایک خاص پہاڑ کا نام ہے اور پٹنہ ایک خاص شہر کا نام ہے ۔
اسم معرفہ کی سات قسمیں ہیں: (١)علم (٢)ضمیر (٣)اسم اشارہ (٤) اسم موصول (٥)معہود (٦)مضاف (٧)منادی
(٢) اسم نکرہ : اس عام اسم کو کہتے ہیں ۔ جو اپنے نوعیت کے تمام اقسام پر صادق آۓ جیسے “شہر” اس سے مراد دنیا کا کوئی بھی شہر ہوسکتا ہے ۔’ندی‘ اس سے مراد دنیا کی کوئی بھی ندی ہوسکتی ہے