آشیانہ -نگار عظیم
यहां हम daraksha urdu book Bihar board Class 10th Urdu chapter 5 آشیانہ Solutions Note Aashiyana subjective question آشیانہ वस्तुनिष्ठ और व्यक्तिपरक प्रदान कर रहे हैं क्योंकि यह कक्षा 10 के छात्रों के लिए बहुत महत्वपूर्ण है क्योंकि हम सभी जानते हैं कि प्रत्येक बोर्ड परीक्षा प्रश्न में वस्तुनिष्ठ और व्यक्तिपरक होता है इसलिए छात्रों को इन प्रश्नों का अभ्यास करना चाहिए ताकि छात्र बोर्ड में अच्छे अंक प्राप्त कर सकते हैं। Bihar Board Class 10 Urdu Chapter – 5 آشیانہ यहां हम daraksha urdu book class 10 chapter 5 آشیانہ (Aashiyana) subjective question प्रदान कर रहे हैं ताकि छात्र अधिक से अधिक अभ्यास करें।
Bihar board Class 10th Urdu chapter 5 آشیانہ Solutions Note
مختصر ترین سوالات مع جوابات
سوال1- نگارعظیم کا اصل نام کیا ہے ؟
جواب : نگارعظیم کا اصل نام ملکہ مہر نگار ہے ۔
سوال 2- نگارعظیم نے کس کس موضوع میں ایم اے کیا ؟
جواب : نگارعظیم نے اردو کے ساتھ ڈرائنگ اور پینٹنگ میں بھی ایم اے کیا
سوال 3- نگارعظیم کے اولین افسانوی مجموعے کا نام کیا ہے ؟
جواب : نگارعظیم کے اولین افسانوی مجموعہ کا نام” عکس” ہے ۔
سوال4- نگارعظیم کا مجموعہ گہن کب شائع ہوا ؟
جواب : نگار عظیم کا مجموعہ گہن ۱۹۹۹ ء میں شائع ہوا ۔
سوال 5- نگار عظیم کے سفر نامہ کا نام کیا ہے ؟
جواب : نگارعظیم کے سفرنامہ کا نام ” گردآوارگی” ہے ۔
مختصر سوالات مع جوابات
سوال 1- “سہی اور صحیح کے فرق کو جملوں میں استعمال کر کے واضح کیجے ؟
جواب : سہی = صف آخری سے بھی دورتر جواشارہ ہوتو وہی سہی
صحیح = غریبوں کو ستانا صحیح نہیں ہے ۔
سہی کے معنی غنیمت کے ہوتے ہیں اور “صحیح”کے معنی درست کے ہوتے ہیں ۔ دونوں کے استعمال اور معنی سے فرق ظاہر ہو گیا ۔
سوال2- نگارعظیم کی شخصیت پر پانچ جملے لکھئے ؟
جواب : نگار عظیم کی شخصیت کا شمار اردو کے اہم ترین خاتون افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے انہوں نے اپنے افسانوں میں موجودہ دور کے ابھرتے ہوۓ مسائل حیات کو فنکاری کے ساتھ پیش کیا ہے۔خاص طور سے عورتوں کی مظلومیت اور ان کے مسائل نمایاں طور پر سامنے آۓ ہیں جس سے آج کی عورتوں کو موجودہ سماج میں جینے کا حوصلہ ملتا ہے ۔ نگار عظیم کا افسانوی مجموعہ گہن اس کی زندہ مثال ہے۔ان کے افسانوں میں کردار نگاری اور موضوعات دونوں اہم ہیں ۔
سوال3- صنف افسانہ پر پانچ جملے لکھے ؟
جواب : صنف افسانہ داستان اور ناول کی مختصر ترین شکل ہے ۔ بالفاظ دیگر مختصر کہانیوں کو ہی فنی اعتبار سے افسانہ کہتے ہیں اردو میں افسانے کی روایت ناول کی بہ نسبت جدید ہے ۔ ناول میں کسی شخص کی زندگی کی مکمل عکاسی ہوتی ہے جبکہ افسانے میں کسی شخص کی زندگی کے ایک پہلو کو پیش کیا جا تا ہے ۔ افسانے کو ہم ایک نشست میں پڑھ لیتے ہیں جب کہ ناول کے ساتھ ایسی بات نہیں ہے اسے پڑھنے کے لئے کئی نشست درکار ہیں ۔ آج کے تیز رفتار مشینی زندگی میں افسانوں کے ذریعہ مسائل حیات کو سمجھنا نسبتاً آسان ہے ۔
طویل سوالات مع جوابات
سوال1- سراج کی والدہ اپنے بیٹے کے گھر اکتاہٹ کیوں محسوس کرنے لگیں ؟
جواب : سراج کی والدہ زرینہ اپنے بیٹے کے گھر اکتاہٹ اس لئے محسوس کرنے لگیں کہ وہاں ان کی زندگی میں مسلسل اکتا دینے والی یکسانیت پیدا ہوگئی تھی جبکہ انسانی فطرت ہر وقت کچھ نہ کچھ تبدیلی چاہتی ہے ۔ واقعہ یہ تھا کہ برکت علی صدیقی ایک اعلیٰ عہدے پر فائز تھے بھرا پرا خاندان تھا بیوی بال بچے تھے مالی اعتبار سے بھی خوش حالی تھی سماج میں بھی برکت علی صدیقی کواعلیٰ مقام حاصل تھا ۔ گو یا دنیاوی اعتبار سے وہ ہر طرح سے کامیاب تھے ۔ زندگی میں کوئی کمی نہیں تھی ۔ برکت علی صدیقی نے اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوایا اور ان کا بیٹا سراج بھی اعلیٰ درجہ کی ملازمت کرنے لگا وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ گھر سے دور رہنے والا ۔ برکت علی صدیقی بھی اپنی ملازمت سے سبکدوشی کے بعد زندگی کی دیگر ذمہ داریوں سے بھی فارغ ہو چکے تھے برکت علی صدیقی کے بیٹے سراج اور ان کی بہو نے برکت علی صدیقی کو یہ کہہ کر اپنے یہاں لے آۓ کہ اب آپ لوگوں کے کام کرنے کا وقت نہیں رہا آپ لوگ آرام کیجئے اور میرے یہاں تشریف لائے اور خدمت کا موقع دیجئے ۔ چنانچہ برکت بھی اپنی اہلیہ زرینہ کے ساتھ اپنے بیٹے سراج کے یہاں چلے گئے اور وہاں آرام سے رہنے لگے ۔ بیٹے کے یہاں کوئی ذمہ داری نہیں تھی صرف کھانا اور آرام کرنا تھا اگر سراج کی والدہ زرینہ گھر یلو کاموں میں بہو کا ہاتھ بھی بٹانا چاہتی تو وہ نہایت خوش اسلوبی سے ٹال دیتی کہ آپ آرام کیجئے مجھے خدمت کا موقع دیجئے ۔
اس طرح اب سراج کی والدہ کی زندگی میں کوئی ذمہ داری نہیں تھی صرف کھانا اور آرام کرنا تھا۔ایک طرح کی طرز حیات سے زندگی میں طویل یکسانیت آ گئی تھی اسی یکسانیت کی وجہ سے اکتاہٹ پیدا ہوگئی تھی وہ اپنے گھر میں اپنی زندگی جینا چاہتی تھی ۔
سوال2- زیرنصاب افسانہ “آشیانہ” کے مرکزی کردار پر روشنی ڈالئے ؟
جواب : زیرنصاب افسانہ “آشیانہ” نگار عظیم کا ایک سماجی افسانہ ہے جس کی مرکزی کردار زرینہ ہے ۔ زرینہ ، برکت علی صدیقی کی اہلیہ ہیں ۔ برکت علی اعلیٰ درجہ کی ملازمت سے سبکدوش ہو چکے ہیں اور خوشحال زندگی گزار رہے ا ن کا بیٹا سراج بھی اعلیٰ د ر جہ کی ملازمت کر رہا ہے اور اپنے اہل وعیال کے ساتھ ملازمت کے سلسلہ میں دوسرے شہر میں رہتا ہے ۔ وہاں اپنے والدین کو بھی ساتھ رہنے کے لئے بولوا لیتا ہے – بیٹے کے یہاں برکت علی صدیقی اور ان کی اہلیہ کو ہر طرح کا آرام میسرہے لیکن ان کے پاس کوئی مشغولیت نہیں ہے اس لئے دونوں میاں بیوی کے لئے بیکاری ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے ۔ اس پریشانی کا احساس زرینہ کوسب سے زیادہ ہے گر چہ شب و روز بہت آرام سے گذررہے تھے ۔ برکت علی بھی بظاہر بہت خوش نظر آرہے تھے ۔ بیٹے اور بہو میں بھی کوئی کمی نہیں تھی ۔خدمت گذاری میں بھی کہیں کوئی کمی نہیں تھی ۔ بیٹے سراج اور اس کی بیوی عرفانہ نے ان دونوں پر سواۓ آرام سے رہنے کے کوئی ذمہ داری نہیں دی تھی یوں تو زرینہ اور اس کے شوہر برکت علی صدیقی کے دن بڑے اچھے گذررہے تھے لیکن برکت علی صدیقی کی داخلی بے چینی کو زرینہ نے بھانپ لیا کیونکہ برکت علی کے مزاج کو زرمینہ بخوبی سمجھتی تھی لیکن وہ برکت علی کوٹو کنانہیں چاہتی تھی ۔ زرینہ کے دل کے کسی نہ کسی گوشہ میں یہ خواہش پل رہی تھی” اپنا ہاتھ ہوتا اپنا اختیار ہوتا ؟ اپنی بادشاہت ہوتی ؟ ہم عمر اور ہم خیال عورتیں ہوتیں ؟ اپنی مرضی سے عیش و آرام ہوتا ؟ یا پھر کوئی نہ کوئی اپنا ہوتا ؟ یہ تمام خیالات زرینہ کے دل میں خلش بن کر کھٹک رہے تھے ۔
ساتھ ہی برکت علی کی مایوسی کو بھی زر ینہ محسوس کر رہی تھی چنانچہ ایک دن برکت علی خود ہی بول پڑے کہ میں آرام کرتے اور کتابیں پڑھتے پڑھتے بہت تھک گیا ہوں مجھے یہاں دوسال رہنے کے بجاۓ اپنی کوئی مصروفیت تلاش کرنی چاہئے یہ ہمارا گھر نہیں ہے بیٹے اور بہو کا گھر ہے دو سال تک مہمانی میں بیٹھے بیٹھے میں اپنے آپ کو بیمارمحسوس کرنے لگا ہوں ۔ میرے خیال میں تم بیٹے بہو کا گھر چھوڑ کر میرے ساتھ اپنے گھر چلو جہاں تم پکاؤ گی اور میں کھاؤں گا ۔ خواہ چٹنی روٹی ہی کیوں نہ ہوا پنے پڑوسی ہونگے شام کی محفلیں ہوں گی پھر یہ کہ بیٹا بہو چھوٹ تھوڑے ہی جائیں گے وقتاً فوقتاً ہملوگ آتے جاتے رہیں گے ۔
زر ینہ اپنے شوہر برکت علی صدیقی کی مذکورہ باتیں سن کر خوش ہوگئی اور اپنے آشیانے کو آباد کرنے کا فیصلہ لے لیا اورمستقبل کے خیالوں میں گم ہو گئی ۔
سوال 3- افسانے کے ارتقاء کا جائزہ لیجئے ؟
جواب : عام طور سے مختصر قصہ کہانی کو افسانہ کہا جا تا ہے اور نثری ادب کی زبان میں بھی یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ افسانہ فکشن کی مختصر ترین شکل ہے ۔ جس میں زندگی ایجاز واختصار کے ساتھ سما جائے ۔افسانہ میں ناول کی طرح قصہ ، پلاٹ ، کردار ، نقطہ عروج زمان ومکان جیسے تمام عناصر کے ساتھ ایک لازمی عنصر وحدت تاثر ہوتا ہے ۔
سجاد حیدر یلدوم نے اردو میں سب سے پہلے مختصر افسانے کی بنیاد ڈالی ، اس کا پہلا افسانہ نشےکی پہلی تر نگ ۱۹۰۰ ء میں شائع ہوا اور١٩٠٤ ء میں علی محمود کے افسانے ” چھاؤں “کی اشاعت ہوئی لیکن جب پریم چند کے افسانے١٩٠٧ ء میں منظر عام پر آۓ خصوصاً “سورزوطن ” کے عنوان سے ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ضبط ہوا اس وقت اردو افسانے نے اپنے ارتقاء میں ایک نئی پرواز بھری ۔ پریم چند کے افسانوں میں خیالی قصے کہانیوں کے ساتھ زندگی اور سماج کے دیگر مسائل بھی شامل ہوگئے حالانکہ سجاد حیدر یلدوم نیاز فتح پوری اور مجنون گورکھپوری وغیرہ فنکاروں نے اسی زمانے میں رومانی افسانے بھی لکھے –
پریم چند کے زیر اثر ترقی پسند افسانہ نگاروں کی ایک پوری جماعت سامنے آگئی جس میں سجاد ظہر ، احمد علی ، رشید جہاں اور محمود الظفر کے افسانے انگارے بھی شامل ہوۓ ۔ کرشن چندر بیدی منٹو ، عصمت چغتائی سہیل عظیم آبادی اور شکیلہ اختر وغیرہ نے آزادی سے قبل ہی افسانہ نگاری میں اپنی شناخت بنائی تھی ۔ جدیدیت کے زمانے میں غیاث احمد گدی ،سریندر پرکاش ، جیلانی بانو اور سلام بن رزاق وغیرہ نے جدید افسانے کی علامتی فضا قائم کی ۔ اردو افسانے کی عمر بس ایک صدی کی ہے لیکن اس صنف نے اتنی ترقی کر لی جس کی وجہ سے اردو نثر کا دامن بہت وسیع ہو گیا وقت کی تبد یلی کے ساتھ افسانے میں بھی بہت سی تبدیلیاں ہوئیں لیکن پریم چند نے جس بیانیہ اور سادہ زبان کو افسانے کے لئے آزمایا تھا وہ اردو افسانے کا سب سے کارگر ہتھیا ر ثابت ہوا ۔
سوال4- نگار عظیم کی افسانوی خصوصیات بیان کیجئے ؟
جواب : اردو کے خواتین افساہ نگاروں میں نگارنظیم کی شخصیت نہایت اہم ہے وہ اپنے فن کی پختگی میں کبھی کبھی عصمت چغتائی ، جیلانی بانو اور شکیلہ اختر کے ساتھ کھڑی ہوئی نظر آتی ہیں نگارنظیم نے بدلتے ہوۓ سائنسی اور مادی ماحول میں افسانہ کے کینوس کو وسعت دی ہے اور اپنے افسانوں میں مادی مسائل کے ساتھ ساتھ نفسیاتی گتھیوں کو بھی سلجھایا ہے ۔ عملی زندگی اور معاشی ترقیوں میں خواتین کی حصہ داری جیسے جیسے بڑھتی جارہی ہے ویسے ویسے معاشرے میں خواتین کے مسائل بھی بڑھتے جارہے ہیں ۔ نگار عظیم نے اپنے افسانوں میں خواتین کے مسائل کو بھی بڑے حوصلہ اور دلیری کے ساتھ پیش کیا ہے ۔ فن کی کسوٹی اور معیار سے اگر دیکھا جاۓ تو نگار عظیم کے افسانے کسی بھی معاصر خاتون افسانہ نگاروں سے کم نہیں ہے –
چنانچہ زیر نصاب افسانہ آشیانہ میں نگار عظیم نے ایک خوشحال اور فارغ البال خاندان کے مرد اور عورت کی نفسیات کو بڑی کامیابی اور فنی مہارت کے ساتھ پیش کیا ہے ’ آشیانہ میں برکت علی صدیقی اور ان کی اہلیہ کی وہ نفسیات جنہیں بڑھاپے میں اپنے بیٹے سراج اور اس کی بیوی عرفانہ کے ساتھ رہنا پڑتا ہے یہ ایک مشتر کہ خاندان کی علامت ہے اور اس نوعیت کے مختصر مگر مشتر کہ خاندان میں نہ صرف یہ کہ معاشی لحاظ سے کمزور طبقے کے افراد کے لئے مسائل پیدا ہوتے ہیں بلکہ اکثر و بیشتر حالات میں مشترکہ خاندان کے خوشحال افراد بھی شروع شروع میں اکتاہٹ اور گھٹن محسوس کرتے ہیں پھر بتدریج آپس میں اختلافات بڑھتے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ اس اختلاف اور گھٹن سے بچنے کے لئے الگ رہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔
تقریباً اسی صورت حال سے برکت علی صدیقی اور ان کی بیگم بھی دو چار ہوتے ہیں جب انہیں اپنے بیٹے سراج اور بہوعرفانہ کے ساتھ دوسالوں تک رہنا پڑا تو اچھے خاصے تعلقات میں دڑار پڑنے لگی ۔ حالانکہ وہاں انہیں بظاہر کوئی تکلیف نہیں تھی بلکہ آرام ہی آرام تھا۔لیکن جینے کی آزادی کو کہیں نہ کہیں چوٹ لگ رہی تھی۔ اس لئے ان دونوں نے بیٹے سے الگ ہوکر اپنے بنائے ہوۓ آشیاۓ میں جا کر رہنے کا فیصلہ کر لیا۔ برکت علی اور ان کی بیگم زرینہ کے اس نفسیاتی گھٹن اورا کتا ہٹ و یکسانیت سے پیدا ہونے والے گھر یلو انتشار کو کرداروں کی نفسیات کی روشنی میں نگار عظیم نے نہایت خوبصورتی اور فنی سلیقے کے ساتھ اس افسانے میں پیش کیا ہے